مشرق وسطی میں انٹرنیٹ کی دوسری دھایی
مشرق وسطی میں انٹرنیٹ دوسری دھایی میں علاقای حکومتوں کے لیے ایک چیلنج بنتا جا رہا ہے خصوصا آمروں کے لیے جو عوا می آزادیوں پر سخت پبندیاں لگا تے ہیں ۔ اس وجہ سے فیس بک پر سیاسی اور سما جی تبدیلی کے لیے پریشر گروپ بن گے ہیں۔ جو یوٹیوب اور ٹویٹرکے زریعے اصل واقعا ت کی فوری تفصیلات فراہم کرتے ہیں حتی کہ بلاگرزکی گرفتاریوں کے خلاف مہم بھی چلا چکے ہیں۔
مشرق وسطی میں انٹرنیٹ1990 کی دھایی کے شروع میں پہنچا لیکن اگلی صدی کے آغاز سے یہ بہت تیزی سےپھیلا ۔ ان دنوں میں مشرق وسطی میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کا تناسب(بما اسرا یل) 1648 فیصدتک بڑھ گیا، جبکہ دنیا میں یہ تناسب360 فیصد تھا۔اس کے پھیلنے کا تناسب 28 فیصدہو چکا ہے۔(26فیصد دنیا کےتناسب سےبھی زیادہ)۔ لیکن پھر بھی یہ ایک حقیقت تھی کہ اس خطے میں انٹرنیٹ استعمال کرنےوالے دنیا کا صرف 3.3فیصد تھے۔ایران اور شام میں اس شرح کا بڑھنا بہت دلچسپ تھا (بالترتیب 12780فیصد اور11783 فیصد) ۔
چناچہ اس اعتبار سے مشرق وسطی خلیجی ممالک سے تھوڑا سا مختلف بھی ہے جن میں پھیلاو کا تناسب 50 فیصد یا اس سے بھی زیادہ ہے۔ اسی طرح آّپکو1 فیصد پھیلاو والے ایراق اور یمن بھی اسی خطے میں ملتے ہیں۔اس دھایی تک انٹرنیٹ اور اسکے سماجی نیٹ ورکس کے اثرات مشرق وسطی میں بہت زیادہ تھے تاہم اس خطے کی کپھ حکومتوں نے سماجی اور معاشی لحاظ سے مواقع فراہم نہیں کیے ۔ انٹرنیٹ کے اثرات مشرق وسطی میں بہت تیزاور بڑے پیمانے پرہرکسی کی پہنچ میں موبایل کے زریعے پھیلے جو کہ لوگوں میں معلومات کے تبادلے کے لیے بہترین اور تیز ترین ذریعہ ہے۔
حال ہی میں 2009 میں ایرانی صدارتی انتخابات اس حوالے سے قابل ذکر ہیں۔ خمینی کے دور زمانہ سے ایران کے لوگ معلومات اکھٹی کرنے اور خبر رسانی میں بہت مشہور رہے ہیں۔ خمینی – جس نےمذہبی تعلیمات آڈیو کیسٹوں کے ذریعے پھیلایں اور ایک آج کے دور ہے جب سیٹلایٹ ڈشز تہران کی ہر چھت پر موجود ہیں۔ اس الیکشن میں چاروں صدارتی امیدواروں نے انٹرنیٹ کو کیاخصوصا اس کےمختلف سماجی نیٹ ورکزپراعتماد کرتے ہوۓ اچھی طرح استعمال کیا۔
لیکن ایران میں انٹرنیٹ کی طاقت اور حکومت کے خلاف اس کی جارحیت اس وقت کھل کر سامنے آیی جب الیکشن کے نتاءج سامنے آءے۔ لوگوں کے ہجوم احتجاج کے لیے تہران اور دوسرے شہروں کی گلیوں میں نکل آءےاور آن لاءن ایرانی بلاگرز اور انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں نے اس احتجاج بارے پوری دنیا تک معلومات پہنچایں۔ اس منظر نامے کی مکمل معلومات ٹویٹر پر بھیجی گیں، گلیوں میں ہونے والے واقعات کی سینکڑوں وڈیوز کی یو ٹیوب پررکھی گیں اور بہت زیادہ تصویریں فلیکرزمیں پہنچایی گءیں۔ معلومات کے اس بہاو نےثابت کر دیا کہ انٹرنیٹ آمرملکوں میں کتنا اہم ہے اور ایران کے لوگوں کے لیے امید کی کرن بھی۔
جہاں تک میراخیال ہےاس دھایی کا اصل ہیرو ایران کا ایک عام انٹرنیٹ استعمال کرنے والا ہے۔ جسے حکومتی سخت رویوں، محدود قوانین، نامناسب پبندیوں، انٹرنیٹ پولیس (ایران اور شام میں)، مخصرص مقامات پرٹیکنالوجی اور معلومات کی کمی اور اکثر کھلے عام زیادہ قیمتوں سے نمٹنا ہے ۔ اور وہ تمام انٹرنیٹ استعمال کرنے والے اور بلاگز لکھنےوالے ہیرو ہیں جوقید و موت کے ڈر کے باوجوداپنے کام کو جاری رکھے ہوۓ ہیں ۔
جتنا زیادہ انٹرنیٹ ہمارےخطے میں پھیلے گا اتنا ہی زیادہ بڑے پیمانے پر معلومات اور تنقیدبھی پھیلے گی اور تبدیلی کی آواز بلند ہو گی جو کہ لوکل حکومتوں کے لیے ایک بڑی مصیبت بن جاۓ گی ۔ اب حکومتیں اپنی عوام کے ساتھ تعلق میں بہت محتاط ہوں گی۔ اس خطے میں انٹرنیٹ کا کردار متنازعہ اور دبی ہوءی آوازوں کے پھیلاو کے لیے مزید بڑھے گا جو جمہوری عمل کو آگے بڑھاۓ گا۔